کہانی کا پہلا صفحہ پہلا تاثر۔۔۔
کہانی وہاں سے شروع ہو جہاں سے کردار کی کہانی کا بیڑا غرق شروع ہو گا۔
پہلی سطر میں کہانی کا مرکزی خیال لکھا جاسکتا ہے یا کوئی مکالمہ بھی جس کا آگے کہانی سے تعلق ہو۔ پہلے صفحے میں مرکزی کردار آجائے تو اس سے بہترین کچھ نہیں۔ لیکن وہ کچھ خاص کررہا ہو ناشتہ، بال بنانا اور سب کو صبح بخیر جیسے کام نہ کرے۔ یوں ہوسکتا ہے کہ اس کی شادی یا سالگرہ ہو یا اس کا سی ایس ایس کا رزلٹ آیا ہو جس میں وہ پاس ہوگیا(خیر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔) کردار کی زندگی کے خاص دن سے کہانی شروع ہو اور تبھی خوشیوں کو نظر لگ گئی ٹائپ سین۔
کہانی دس منٹ پہلے شروع کریں یعنی چیزیں خراب ہونے سے دس منٹ پہلے کا وقت۔ پہلی تین لائنز میں سب "ٹھیک" ہو اور پھر سب "چوپٹ" ہوجائے۔
پہلی لائن میں کچھ ایسا ہو جو کہ یا تو بہت ہی حیرت انگیز یا عام سا ہو کہ ریڈر مزید پڑھنا چاہے۔ پہلے صفحے پر خواب نہ لکھیں نہ ہی کالی اندھیری رات۔ یا اگر کالی اندھیری رات لکھنی ہے تو اس کالی اندھیری رات میں کچھ ہو ایسا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ مطلب کردار کو لگا تھا کہ تو وہی روٹین والا دن ہے مگر کچھ بھیانک یا الگ ہوگیا اس رات۔
اگر آغاز میں ہی بیک سٹوری بتانا مقصود ہوتو الف تا ے سب نہ لکھ دیا جائے۔ صرف ٹکڑے دیے جائیں۔
اگر پہلے صفحے پر کردار کو لانے کا ارادہ ہے تو اس کے بارے میں آدھی آدھی باتیں بتائی جائیں۔ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی تیسرا شخص کردار کے بارے میں نفرت کا اظہار کرتا ہے اور اس کے سامنے آتے ہی محبت لٹانےگتا ہے اس پائنٹ پر ریڈر کو تجسس ہوگا کہ ایسا کیا ہے جو یہ بندہ منافقت کرنے پر مجبور ہے؟ کوئی سوال ہونا چاہیے جس کی جستجو میں ریڈر آگے پڑھنا چاہے۔
پہلے باب میں یوں کیا جاسکتا ہے کہ کردار زندگی بھر اس خاص لمحے کا انتظار کررہا تھا اور اسے وہ چیز ملنے لگتی ہے مگر قدرت(یعنی رائٹر) سب چوپٹ کردیتا ہے۔ یہاں پر دشمن کو لایا جاسکتا ہے۔ دشمن کوئی انسان ہو سکتا ہے اور معاشرے کی نادکھنے والی زنجیر اور کردار کا اپنا کوئی خوف یا ڈر۔
شاعری سے آغاز کرنا ہے تو کوشش کریں وہ ایسا شعر ہو جس میں تمام کہانی کا مرکزی خیال ہو۔ ہر صفحے میں کچھ ادھوری چیزیں ہونی چاہئیں جن کی جستجو اور تجسس میں رئڈر آگے بڑھنا چاہے۔ مثلا جنت کے پتے میں کہانی حیا کی ای میل سے شروع ہوتی ہے اور تبھی اسے کھڑکی پر کچھ عجیب لگتا ہے حیا اور ریڈر دونوں سوچتے ہیں کہ وہاں کیا تھا؟ حیا کو گلدستہ ملتا ہے ریڈر بھی تجسس کا شکار ہے کہ آخر وہ گلدستہ کون لایا۔ دیمک ذدہ محبت میں پہلے صفحے پر خواب ہے لیکن وہ خواب "لکھا" بہت اچھا ہے۔ اگر آپ اتنا اچھا لکھ سکتے ہیں تو خواب سے شروع کریں لیکن اس خواب کا کوئی مقصد بھی ہونا چاہیے۔ اگر آپ واقعی میں بڑا جان دار لکھ سکتے ہیں تو خواب سے شروع کر لیں چاہے۔
محبت لفظ ہے لیکن۔۔۔ میں کہانی قتل سے شروع ہوتی ہے۔ کیونکہ بگاڑ وہاں سے شروع ہوتا ہے۔ نمل میں آغاز فارس کی نماز سے ہوا تھا اور اس دوران پولیس والے اسی کے بارے میں بات کررہے ہوتے ہیں پولیس والوں کی باتوں سے ہمیں فارس کے حالات کے بارے میں ٹکڑے ٹکڑے پتا چلتا ہے اور آگے جاکر زمر سین میں اتی ہے تو اخبار کے تراشے ماضی کا ہی بتاتے ہیں۔ زمر کے گھر میں جو ملازم تھا جس کا نام مجھے بھول گیا وہ اپنی پھپو یا چاچی کو زمر کے بارے میں بتا رہا ہوتا ہے اور تبھی ہمیں سعدی کا بھی پتا چلتا ہے۔ زمر کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ " ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک لفظ " ادا کرتی ہے کیونکہ اس کے گردوں کا مسلئہ ہوتا ہے۔ فارس کا لکھا تھا کہ وہ مختصر بولتا ہے اور ناول میں اس کے ڈائلوگ مختصر ہی تھے ذیادہ تر۔ میں ٹاپک سے ہٹ رہی ہوں شاید۔۔۔۔ اچھا تو قصہ مختصر کہ
کہانی وہاں سے شروع کریں جہاں سے وہ شروع ہوگی۔ شروع میں ماضی کے ٹکڑے دیں اور چیزوں کو ادھورا چھوڑ دیں تاکہ ریڈر پڑھے۔ ریڈر تب پڑھے گا جب وہ جاننا چاہے گا کہ آگے کیا ہوگا؟ آپ نے بس وہ صورتحال بنانی ہے کہ آگے کیا ہوگا؟
سچ تو یہ ہے پہلے صفحے کی پہلی لائن احتتام پر پہنچ کر بھول جاتی ہے جبکہ آخری صفحے کی آخری لائن پھر بھی کافی حد تک ذہن میں تازہ رہتی ہے تو آغاز کو سادہ رکھیں اور آسان بھی تاکہ بچارا ریڈر پڑھے جبکہ آخر کی لائن تھوڑی مخلتف لکھیں۔
اگر شعر ڈالنا ہوتو بہت احتیاط سے شاعری کا انتخاب کریں۔
آغاز میں کوشش کریں کہ نام نہ لکھیں۔ مثلا:
بازار میں جگہ بناتے وہ شدید اکتایا تھا وہ آج کے دن تو خاص کر بازار کے چکر نہیں لگانا چاہتا تھا مگر قسمت کی ستم ظریفی کہ اتنے خاص دن پر وہ یہاں تھا بازاروں میں دھکے کھاتے ہاتھ میں پکڑے شاپر سنبھالتے فرمعبردار اولاد کی طرح وہ اس کی پیروی میں قدم اٹھا رہا تھا۔ وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ جبھی ایک فقیر نے اسے روک لیا۔ وہ جو شدید بیزار تھا اپنی جگہ کڑھ کر رہ گیا۔ اس نے نیلی قمیص کی اوپری جیب سے دس رقپے کا نوٹ نکالا۔ دس روپے پر فقیر کا منہ بن گیا۔ فقیر کی مایوسی نظر انداز کرتے وہ چلتا بنا۔ اس کا بس چلتا تو اڑ کر گھر پہنچ جاتا۔ فقیر نیلی قمیض والے پر لعنت بھیج کر آگے بڑھ گیا۔"
(یہ میں نے خود بنایا ہے کیسا تھا ویسے؟)
اچھا تو اس پیراگراف میں الفاظ اتنے مشکل نہیں تھے یہ کہانی کا پہلا پیراگراف تھا جس میں ریڈر کو پتا چلا کہ کردار کا کوئی خاص دن ہے۔ وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا ہے اور وہ کسی کے پیچھے چل رہا ہے۔
بس اسی تجسس میں ریڈر آگے پڑھنا چاہے گا۔ مہ وہ خاص دن کیا ہے؟ وہ کس کے پیچھے چل رہا ہے؟
مزید کوئی سوال ہو تو انسٹا پر میسج کر لیں۔
@fictionwithchocolate
ضروری نہیں کہ یہ تجاویز ہر ایک کے لیے قابل عمل ہوں*